فردوس عاشق اعوان کی 9 زندگیاں

File Photo 

مشہور اور پرانا انگریزی محاورہ ہے کہ بلی کی 9 زندگیاں ہوتی ہیں، اِس محاورے کے مطابق بلی اپنی پہلی 3 زندگیوں میں کھیلتی ہے پھر 3 زندگیوں میں آوارہ گردی کرتی ہے اور آخری 3 زندگیوں میں وہ ایک جگہ قیام کرتی ہے۔

بلیوں کو اپنی جگہ بدلتے تو ہم نے خود بھی دیکھا ہے اور یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ بلی اپنے چھوٹے چھوٹے بلونگڑوں کو بھی منہ میں اٹھا کر کئی جگہ گھماتی پھراتی ہے۔

زندگی کو مختلف ادوار اور انداز میں گزارنے کا فن بلی سے بہتر کوئی نہیں جانتا یا پھر ہماری فردوس عاشق اعوان ہیں جو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کم از کم 5 سیاسی زندگیاں گزار چکی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ہر بار پوری آن بان اور شان و شوکت سے نئی زندگی میں اِس زور آور انداز میں ظاہر ہوتی ہیں کہ اپنی زندگی کے پچھلے کیریئرز کی شان کو خود ہی ماند کر دیتی ہیں، یوں لگتا ہے کہ اُن کی موجودہ زندگی کا موڑ ہی سب سے شاندار ہے۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ طالبہ فردوس عاشق فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں کلیلیں بھرتی پھرتی تھیں۔

پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی سرگرم کارکن کے طور پر مخالفوں کے جلسے اُلٹا دیا کرتی تھیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وہ ڈاکٹر بن کر ایک فلاحی انجمن چلانے لگیں، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ مسلم لیگ (ق )کی خواتین کے لئے مخصوص نشست پر نامزد ہو گئیں، قومی اسمبلی میں گئیں تو اپنے ہی حلقے سے تعلق رکھنے والے چودھری امیر حسین سے میچ ڈال لیا۔

اگلے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی میں لینڈ کیا، چودھری امیر حسین کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لیا اور الیکشن جیت کر ایک بڑا معرکہ سر کر لیا۔ قسمت نے بھی یاوری کی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا قلمدان اُن کے حصے میں آ گیا۔

پیپلز پارٹی کا سورج غروب ہوا تو ڈاکٹر فردوس عاشق نے پی ٹی آئی کے ساتھ زندگی کا نیا سفر شروع کر دیا۔ پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے میں تو کامیاب ہو گئیں مگر اِس بار مدِمقابل وریو خاندان تھا۔

سو ہار گئیں مگر اُنہوں نے ہار کو دل پر نہیں لیا بلکہ اپنی ہار کو جیت بنانے کے لئے کمر کس لی، انتھک اور محنتی تو وہ ہیں سو بنی گالا کے راستے وفاقی مشیر اطلاعات بن کر چمکنے لگیں۔

حاسدوں کو پسند نہ آئیں، چاند گہنانے لگا اور پھر ایک دن اُن کی چھٹی کروا کے شبلی فراز کو اُن کی گدی پر بٹھا دیا گیا۔

دھچکا تو بہت بڑا تھا، کوئی اور ہوتا تو سیاست چھوڑ دیتا مگر ڈاکٹر فردوس عاشق ہار ماننے والوں میں سے نہیں، سو اپنی سیاست کی پانچویں باری میں وہ پنجاب کی مشیر اطلاعات بن کر پھر سے جلوہ گر ہو گئی ہیں اور یوں پہلے سے جلتے کئی چراغوں کو گل کرنے کا سبب بن گئی ہیں۔

ڈاکٹر فردوس عاشق پنجاب میں اِس ٹاسک کے ساتھ آئی ہیں کہ وزیراعلیٰ بزدار کے کارناموں کو ہائی لائٹ کریں اور پنجاب میں اب تک جو کشتوں کے پشتے لگائے ہیں، اُن کو لوگوں کے سامنے لائیں۔

دوسری طرف ان کو لانے کا مقصد مریم نواز اور مریم اورنگ زیب کے مقابلے میں کھڑا کرنا ہے تاکہ خواتین کا جواب خاتون ہی دے سکے۔

ڈاکٹر صاحبہ خود بھی چاہتی ہوں گی کہ وہ سیالکوٹ میں اپنے ناقابلِ تسخیر مدِمقابل کو ہرانے کے لئے پنجاب حکومت سے ایسے کام کروا لیں جو کل کو الیکشن میں اُن کے کام آئیں۔

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی 9زندگیاں ایک معمہ ہیں، اُن کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ پاتال میں گر کر پھر سے عروج کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں۔ کیا گوٹیاں لڑاتی ہیں کہ بند دروازے کھل جاتے ہیں۔

کیا طلسم یا جادو ہے کہ وہ چلہ کاٹ کر ایسی پھونک مارتی ہیں کہ پھر سے اقتدار کی دیوی اُن پر مہرباں ہو جاتی ہے۔

وفاقی مشیر اطلاعات کے طور پر فارغ ہوئیں تو چپ سادھ لی مگر کہیں نہ کہیں سے خبر ملتی رہی کہ وہ گھر نہیں بیٹھیں، اندر ہی اندر سے زمین دوز راستہ بنا رہی ہیں اور واقعی ایسا ہی ہوا کہ ایک بار پھر وہ تام جھام سے پنجاب کی وزارتِ اطلاعات کو سنبھال چکی ہیں۔ کہنے والے اب بھی کہہ رہے ہیں کہ اِس بار بھی راستہ بنی گالہ سے ہی نکلا ہے۔

ڈاکٹر فردوس عاشق کے دوبارہ سے اِن ہونے سے حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی کم ہو گی نہ زیادہ۔ ڈاکٹر فردوس ٹی وی اسکرینوں پر شاید زیادہ ٹائم لے لیں کیونکہ وہ بنا کے رکھنے کا فن جانتی ہیں لیکن اُنہیں وہی وقت ملے گا جو پہلے فیاض چوہان یا شہباز گل کو مل رہا تھا۔

اپوزیشن اپنا ٹائم تو پورا لے گی، حکومت کا ٹائم تین ترجمانوں میں تقسیم ہو گا۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ آپس کے مقابلے میں آگے کون رہتا ہے؟

اِسے حسنِ اتفاق کہیے یا ستم ظریفی کہ اِدھر ڈاکٹر فردوس عاشق نے اپنی سیاسی زندگی کا پانچواں دور شروع کیا ہے اور اُدھر ایک زمانے میں اُن کی ق لیگی کولیگ ایم این اے کشمالہ طارق نے دوسری شادی کرکے اپنی زندگی کا نیا سفر شروع کیا ہے۔

کشمالہ اور فردوس عاشق میں سب اچھا نہیں رہا، ایک بار تو ٹاک شو میں بات تو تو میں میں سے آگے ذاتیات تک چلی گئی تھی۔

امید ہے وقت گزرنے کے ساتھ رنجشیں جاتی رہی ہوں گی اور ڈاکٹر فردوس عاشق نے پاکستان میں خود کو سب سے اچھا Carryکرنے والی خاتون کشمالہ طارق کو نئی زندگی پر دلی مبارکباد دے دی ہوگی۔

ڈاکٹر فردوس عاشق کی بطور مشیر اطلاعات پنجاب تقرری کے بعد اُن پر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے بعض افراد کی طرف سے لگائے گئے الزامات تو دم توڑ گئے ہیں مگر فردوس عاشق کو احتساب اکبر اور اعظم نوکر شاہی خان سے اِن الزامات کے بارے میں ضرور پوچھنا چاہئے جو اُن کی وفاق سے فراغت پر لگائے گئے تھے تاکہ آنے والے کل میں پھر سے وہ الزامات دہرائے نہ جا سکیں۔

ڈاکٹر فردوس عاشق وفاق میں اتنی کامیاب نہیں ہوئیں جتنی صوبے میں ہوں گی۔ وفاق میں کئی طاقتیں اور کئی شخصیتیں تھیں، ہر ایک کو خوش رکھنا اور مطمئن کرنا بہت مشکل تھا۔ پنجاب میں بزکش کو ہاتھ میں رکھنا اور وفاق میں بڑے خان کی نظروں میں رہنا اتنا مشکل نہیں ہوگا۔ وفاق میں کبھی کوئی ایجنسی رپورٹ کر دیتی ہے، کبھی مودی ملتانی اور کبھی اسد بن غلام عمر شکایت کر دیتا تھا۔

فواد جہلمی سے فردوس کی بنتی نہیں تھی کیونکہ اُسے ہٹا کر تو آئی تھیں۔ آخر میں احتساب اکبر اور اعظم نوکر شاہی خان سے تو باقاعدہ دوبدو لڑائی ہو گئی تھی۔

مسئلہ یہ ہے کہ فیاض چوہان بھی تقریر و بیان میں اِس فیاضی سے کام لیتے رہے کہ وزیراعلیٰ کو بہت ہی بڑا کامیاب اور لائق ثابت کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر فردوس وزیراعلیٰ بزکش کو کیسے اِس رتبے سے آگے لے کر جائیں گی؟ یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

سیاست اور صحافت دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق کا سارا سیاسی کیریئر ہماری آنکھوں کے سامنے ہی بنتا، سنورتا اور بگڑتا رہا ہے۔

اتنے برسوں کے Interactionکے بعد یہ بھی اندازہ ہے کہ وہ کھلے دل اور کھلے ذہن کی مالکہ ہیں، اِس لئے اُن پر کالم کے کالم باندھے جاتے ہیں اور وہ بھی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اِنہیں پڑھ کر ہوا میں اڑا دیتی ہیں۔ اُن میں لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے اور چلانے کی خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔

آخر میں ہلکے پھلکے انداز میں یہ کہنا بھی بےجا نہ ہوگا کہ جس مہارت سے ڈاکٹر فردوس عاشق نے اوپر تلے اپنے پانچ نئے سیاسی کیریئر بنائے ہیں اور 5نئے سیاسی جنم لئے ہیں، اُمید ہے کہ اگلی حکومت (جو بھی ہوگی) ڈاکٹر فردوس عاشق اِس کا بھی حصہ ہوں گی اور اُس کے لئے وہ اپنا چھٹا سیاسی جنم لیں گے۔ ہم کم از کم بلی کی طرح اُن کی 9زندگیاں تو دیکھ کر ہی دنیا سے رخصت ہوں گے۔

ہم کب تک مقروض نسلیں پیدا کریں گے

File Photo



 غالب یاد آرہے ہیں:

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے

پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

پھر جی میں ہے کہ درپہ کسی کے پڑے رہیں

سر زیر بار منتِ درباں کیے ہوئے

اسٹیبلشمنٹ بھی کیا ظالم حسینہ ہے۔ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔ سب اسی زلف کے اسیر ہوئے۔ انتخاب عوام کا ہوتا ہے مگر حسن انتخاب اسٹیبلشمنٹ کا۔ میری مدد کیجئے۔ میں آئین میں آرٹیکل تلاش کررہا ہوں،جس کے تحت سیاستدان فوج سے مذاکرات کرسکتے ہیں اور یہ سول امور میں مداخلت بھی نہ کہلائے۔

آج اتوار ہے۔ ملک کی ایک اکائی میں فیصلے کا دن۔کیا آپ نے اپنی اولادوں اور ان کی اولادوں کو گلگت بلتستان کے غیور لوگوں کی جرأت اور بے خوفی کی کہانیاں سنائیں۔ انہوں نے کتنی قربانیاں دے کر اپنے علاقے کو آزاد کروایا۔ کس طرح ایک بڑی طاقت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ پہاڑوں کے بیٹے پہاڑوں کی طرح توانا اور ناقابل تسخیر۔ اس لیے انتخابی مہم میں وزیر اعظم، وفاقی وزراء دونوں بڑی قومی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ گلگت بلتستان کے دلوں پر دستک دینے پر مجبور۔ مگر کورونا کی عالمگیر وبا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا گیا۔ ماسک نہیں پہنے گئے۔ سماجی فاصلہ نہیں رکھا گیا۔ صاحبانِ اقتدار کے پیروکار بھی غیر ذمہ دار۔ عاشقا ن اقتدار کے جیالے متوالے بھی۔ اللہ اپنا کرم کرے۔ یہ اس پروردگار کا پاکستان پر فضل ہے کہ امریکہ ،بھارت، ایران ،برازیل کی طرح کورونا نے ہزاروں لاکھوں کو لقمہ اجل نہیں بنایا۔ لیکن پھر بھی بڑے بڑے لوگ ۔ سینئر ڈاکٹر ۔چیف جسٹس ۔ سیاستدان اس کی نذر ہوگئے۔

ریٹائرڈ صوبیدار اکرام نے آزاد جموں کشمیر کے ایک قصبے سے فون کیا۔ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ ایک طرف پیرانہ سالی دوسری طرف مہنگائی۔ اپنی طویل عمر میں اتنی گرانی انہوں نے پہلے نہیں دیکھی۔ دونوں پارٹیوں کی باریوں اور لوٹ مار سے تنگ آکر انہوں نے بھی عمران خان کو اپنی تمنّائوں کا مرکز بنایا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں عمران خان اپنا کردار ادا کرسکے۔ مگر اس صبح وہ بہت ہی مایوس لگ رہے تھے۔ اور ڈر رہے تھے کہ اس کی حکومت تو جارہی ہے۔ پھر وہی لوگ آجائیں گے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیںکہ کسی شخصیت سے جتنی توقعات باندھی جاتی ہیں اگر وہ پوری نہ ہوں تو اتنی ہی شدید مایوسی ہوتی ہے۔ آج کل یہی صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے۔ مہنگائی ختم کرنے کے دعوے اور وعدے کیے جارہے ہیں۔ مگر یہ کم بخت اوپر ہی جارہی ہے۔ ملک کی بڑی اکثریت کی آمدنی اور ضروری اخراجات میں فاصلہ بڑھ رہا ہے۔

نوید دی جارہی ہے کہ معیشت کے اشاریے مثبت ہیں۔ آبادی کی اکثریت تک اگر مثبت اشاریوں کے ثمرات نہ پہنچیں تو حکمرانوں کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ مجھے تو اپنے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ بھی وحشت میں ڈال رہا ہے۔ 70کی دہائی سے قرضوں کا سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آرہا ہے۔ میں کوئی ماہرِمعاشیات نہیں ہوں لیکن اعداد و شُمار میرے ارد گرد سانپوں کی طرح پھن اٹھائے کھڑے ہیں۔ ان سے کیسے نظر ہٹائوں۔ بتایا جارہا ہے کہ لاکھوں قربانیوں سے حاصل کیے گئے ملک پر 36ہزار ارب روپے کا قرضہ ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے پہلے دو سال میں گیارہ ہزار ارب کا اضافہ کیا ہے۔ مشرف حکومت نے 6½ہزار ارب روپے کا بوجھ چھوڑا تھا۔پی پی پی جاتے وقت اسے 13½ ہزار تک پہنچاگئی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) اس کو 25ہزار ارب تک لے گئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر پاکستانی کم از کم ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ مقروض افراد یا قومیں کبھی بھی سر اٹھاکر نہیں چل سکتیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ انہیں اپنی پوری زندگی یہ قرضے اتارتے ہی گزارنی پڑتی ہے۔ بلکہ یوں سمجھ لیں کہ وہ اپنے یا اپنے بچوں کے لیے نہیں کماتے بلکہ قرضے اتارنے کے لیے شب و روز محنت کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کا اپنا گزارہ کس مشکل سے ہوتا ہے۔ وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔

حیرت یہ ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے۔ وہ قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر شادیانے بجاتی ہے۔ اسے اپنا کارنامہ سمجھتی ہے۔ آج کل آئی ایم ایف کا دبائو بڑھ رہا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ مالیاتی ادارہ غریبوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کے خلاف ہے۔

میری گزارش صرف یہ ہے کہ کوئی سیاسی رہنما کوئی ذمہ دار ایک حتمی عرصہ تو طے کرے کہ پاکستان کب قرضوں سے آزاد ہوسکتا ہے یا ہم یہ سمجھ لیں کہ ہر نسل مقروض پیدا ہوگی۔ اور مرتے دم تک مقروض ہی رہے گی۔ لوگوں کو خبردار کردیا جائے کہ وہ بچے پیدا کریں گے تو قرض ادا کرنے کے لیے۔ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ قرض واپس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہم تو اس وقت قوم کی حیثیت سے بھی اور فرد کے طور پر بھی صرف قرض لینے کی صلاحیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اعداد و شُمار بھی بتاتے ہیں کہ صرف 2004ایسا سال ہے۔ جب سب سے کم قرضہ 33172ملین ڈالر لیا گیا۔ 2002سے 2020کے درمیان 60642ملین ڈالر قرضے۔ اور 2020کی دوسری سہ ماہی میں 112858 ڈالر۔ جو اب تک کا سب سے زیادہ بوجھ ہے۔ اب قرضوں پر چڑھے سود کی ادائیگی ہمارے بجٹ کا سب سے بڑا حصّہ کھاتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر قرضہ بڑھانے کے الزامات عائد کرکے خیال کرتی ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوگیا۔ کسی پارٹی کے پاس قرضہ فری پاکستان کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اپنی ڈائمنڈ جوبلی پر ہم اور زیادہ مقروض ہوں گے۔

جس ملک میں 60فی صد نوجوان آبادی ہو ۔ لوگ جفاکش اور صابر ہوں۔ جہاں سمندر۔ پہاڑوں اور ریگ زاروں میں تیل۔ سونا۔ تانبا۔ قیمتی پتھر چھپے ہوں۔ جہاں موسم سازگار ہو۔ جہاں زمین زرخیز ہو۔ وہ قوم پہلے قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لے۔ مقروض نسلیں پیدا کرتی رہے۔ اس کی سیاسی فوجی قیادت، اقتصادی ماہرین، بینکاروں، یونیورسٹیوں کے لیے مورخ کیا الفاظ استعمال کرے گا۔ کوئی شرم ،کوئی حیا۔


10 لاکھ افراد کو بیروزگار کرنے کا پروگرام

File Photo



 باپ بیٹا جنگل میں شکار کھیلنے گئے، شکار ہاتھ نہ لگا تو تھک ہار کر اپنے اپنے خیموں میں سو گئے۔ آدھی رات کو باپ نے بیٹے کو اُٹھایا اور کہا کہ اوپر دیکھو بیٹے نے کہا کہ آج آسمان پر ستارے جگمگا رہے ہیں، چاند روشنی بکھیر کر جنگل کو منگل کر رہا ہے۔

باپ نے غصے سے بیٹے کو تھپڑ مار کر کہا بیوقوف دیکھ نہیں رہا کہ ہمارے خیمے غائب ہو گئے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہماری معیشت کے ساتھ ہوا اور جو صرف 28 مہینوں میں دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی اور اب مہنگائی کی آڑ میں یہ حکومت، جس نے کنٹینر پر بیٹھ کر قوم کو سبز باغ دکھائے تھے جو ایک ایک کر کے خوفناک بدحالی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

کورونا کی آڑ میں دوبارہ معاش یعنی روزگار پر حملہ کرنے کے درپے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم روزگار اور کاروبار کسی قیمت پر بند نہیں کر یں گے، مگر ان کے وزراء، معاونین، مشیر بڑے بڑے شہروں کو اور 21 نومبر سے شادی ہالوں کو جو 7 ماہ بعد کھلے تھے یک لخت بند کر کے لاکھوں افراد کو بیروزگار کرنے والے ہیں۔صرف شادی ہال بند کرنے سے اس سے منسلک کاروبار جس میں بیوٹی پارلرز، جیولری، ملبوسات، کاسمیٹکس کی دکانیں، فلاور شاپس اور بارہ، پندرہ دیگر کاروبار شامل ہیں، بند ہوجائیں گے۔لاکھوں افراد دوبارہ قرضوں میں جکڑے جائیں گے جو ابھی بمشکل دو تین ماہ بعد اپنے پرانے قرضے اور فاقوں سے نجات حاصل کر پائے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہوٹل، ریسٹورینٹس کھلے رہیں گے تو کیا وہاں کورونا کا اثر نہیں ہوگا جبکہ شادی ہالوں کی مارکیاں تو کئی کئی گز کھلی اور اونچی ہوتی ہیں۔

شادی میں شرکت کے لئے تعداد بھی آدھی کر دی گئی ہے اور SOP's بھی بتا دیے گئے ہیں۔ بوفے سسٹم ختم کر کے میز پر کھانا سرو کیا جارہا ہے۔

ماسک اور سینی ٹائزر کا بھی پابند بنا دیا گیا ہے۔ پھر بیٹھے بٹھائے یہ مصیبت دوبارہ کیوں مسلط کی جا رہی ہے۔ جب کہ ایک طرف حکومت خود اور اس کے مقابلے میں حزب اختلاف اور پی ڈی ایم ہر چھوٹے بڑے شہر میں بڑھ چڑھ کر جلسے کر رہی ہے، کیا اس سے کورونا نہیں پھیلے گا؟

ان شادی ہالوں میں جہاں مرد و خواتین گھروں سے نہا دھو کر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں، صرف 2، ڈھائی گھنٹوں میں فاصلوں سے بیٹھ کر کھانا کھانے سے کورونا پھیلنے کا اندیشہ حماقت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ فیکٹریوں میں لاکھوں کاریگر مرد و خواتین بسوں میں سفر کر کے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ کمرشل مارکیٹیں پبلک سے بھری ہیں۔

خدا کا شکر ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی والے پاکستان میں کورونا کی ہلاکت خیزی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اتنا واویلا مچا کر قوم کو دہشت زدہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ پہلے ہی قوم مہنگائی اور بیروزگاری سے دو چار ہے اور دوبارہ چوریوں اور ڈاکہ زنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دن دہاڑے عوام لٹنے لگے ہیں، پرس اور موبائل چھننے کے واقعات میں تیزی آچکی ہے۔پولیس اور انتظامیہ بے بس ہے ایسے میں مزید بیروز گاری پھیلانا خود حکومت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ SOP's پر سختی سے عمل کرا کر شادی ہال اور اس سے منسلک کاروبار بند نہ کرے۔شادیوں کی بکنگ اور پلاننگ مہینوں قبل ہوتی ہے، صرف ایک ہفتے کے نوٹس سے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کو یک لخت بند کر دیا جائے، بہتر ہے کہ اس مسئلہ کا افہام و تفہیم سے متعلقہ کاروباری افراد کو بلا کر کوئی حل نکالا جائے۔

دوسری جانب اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کے آغاز سے ملک میں باقاعدہ سیاسی جنگ چھڑگئی ہے، اپوزیشن اتحاد کے 3 بڑے اور کامیاب جلسے گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں منعقد ہو چکے ہیں جن میں عوام نے بلاشبہ بڑی تعداد میں شرکت کی اور اس میں کوئی حیرت یا اچنبھے کی بات اس لئے نہیں کہ اپوزیشن نے جن حالات میں اپنی تحریک کا آغاز کیا عوام کی بد دلی اور مایوسی اپنے نقطہ عروج کو چھورہی ہے۔

منہ زور مہنگائی نے اچھے بھلے کھاتے پیتے گھرانوں کے افراد کو بھی تگنی کا ناچ نچا دیا ہے، بے روزگاری ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر اس ملک کو چلانے اور عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں کے سامنے موجود ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران بجلی و گیس کے بلوں میں قسطوں کی سہولت دینے والی حکومت نے جب یکدم واجبات اور ٹیرف بڑھا کر بل بھیجے ہیں تو لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔ وزیر اعظم ان سوا دو برس میں اتنا تو ضرور جان چکے کہ ان کی ٹیم وہ ڈیلیور نہیں کرپا رہی جس کی انہیں امید تھی۔

لیکن ان کی شاید مجبوری ہو کہ وہ سیاسی پرندوں کی زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہیں کرسکتے کیونکہ ایک جانب تو پی ٹی آئی کے اقتدار کی کرسی اتحادیوں کی مرہون منت ہے تو دوسری جانب الیکٹیبلز کی بڑی تعداد بھی ان کی جماعت میں شامل ہے۔

جس دن الیکٹیبلز کو احساس ہوا کہ اب ان تلوں میں تیل نہیں رہا تو موسمی پرندوں کی طرح اُڑ جائیں گے اور عمران خان کچھ کرنا بھی چاہیں گے تو دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح صرف تماشہ ہی دیکھتے رہ جائیں گے۔


سابق شوہر کا وینا ملک پر سنگین الزام، 50 کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا

File Photo



 اداکارہ و میزبان وینا ملک کو ان کے سابق شوہر اسد خٹک نے 50 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا۔

وینا ملک کے سابق شوہر اسد خٹک نے ان پر دونوں بچوں کو غیر قانونی طریقے سے دبئی سے پاکستان منتقل کرنے کے الزام عائد کیا ہے۔

اسد خٹک نے گزشتہ دنوں ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس کیے جس میں انہوں نے وینا ملک پر الزامات لگائے۔

اسد خٹک نے کہا کہ بہت سوچا لیکن اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا، میری خاموشی کو بزدلی سمجھا گیا، مجھے امید ہے کہ ایک باپ کو انصاف ملے گا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ جس اذیت سے میں گزر رہا ہوں کسی کو جواب دینا ہوگا، میں نے وینا ملک کو 50 کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا ہے۔

’را‘ بانی ایم کیو ایم کی فنڈنگ کررہی تھی جس کے ثبوت موجود ہیں: ترجمان پاک فوج

File Photo

 

 اسلام آباد: ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہےکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ بھارتی کمپنیوں کی مدد سے بانی ایم کیو ایم کی فنڈنگ کررہی تھی جس کے ثبوت موجود ہیں۔
  دفتر خارجہ میں وزير خارجه شاهه محمود قريشي اور میجر جنرل بابر افتخار نےکہا کہ بھارت کئی تنظیموں کو ہتھیار، آئی ای ڈی اور خود کش جیکٹس فراہم کر رہا ہے، را نے ٹی ٹی پی کو بھی ہتھیار، خود کش جیکٹس اور آئی ای ڈیز فراہم کیں جب کہ الطاف حسین گروپ کو بھی ہتھیار فراہم کیے گئے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے میں بتایاکہ ’را‘ بھارتی کمپنیوں کی مدد سے بانی ایم کیو ایم کی فنڈنگ کررہی تھی، ان کے پاس3.23 ملین ڈالرز کی منتقلی کے ثبوت ہیں، بھارت نے الطاف گروپ کے 40 دہشت گردوں کو ٹریننگ دی، یہ لوگ تیسرے ملک سے بھارت گئے، ٹریننگ کا دورانیہ 15 دن سے چار ماہ تک تھا، بھارتی تربیتی مراکز افغانستان میں بھی ہیں، اجمل پہاڑی نے تسلیم کیاکہ بھارت الطاف حسین گروپ کو تربیت دیتا ہے۔

آصف زرداری کی صاحبزادی بختاور کی منگنی طے ہوگئی

File Photo


 کراچی: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کی بڑی صاحبزادی بختاور کی منگنی طے ہوگئی۔
بختاور کی منگنی کی تاریخ طے  ہونے کا آصف علی زرداری نے بھی باقاعدہ اعلان کردیا ہے۔
بختاور بھٹو زرداری کی منگنی 27 نومبر کو کراچی میں محمود چوہدری سےہوگی ، محمود چوہدری امریکامیں مقیم تاجر یونس چوہدری کے بیٹے ہیں۔
دعوت نامے پرمہمانوں کو کورونا احتیاطی تدابیراختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے تمام مہمانوں کو تقریب میں شرکت سے 24 گھنٹے قبل کورونا کےمنفی ٹیسٹ کی اسکین کاپی بھی بلاول ہاؤس کو فراہم کرنے کا بھی کہا گیا ہے جب کہ مہمانوں کو موبائل فون رکھنے اور تصاویر بنانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔

تاہم دعوت نامے کے مطابق تمام مہمانوں کو صرف بلاول ہاؤس کے آفیشل فوٹوگرافر کی بنائی گئی تصاویر فراہم کی جائیں گی۔

راحیل شریف نے نواز شریف سے مدت ملازمت میں توسیع مانگی تھی؟

File Photo



 اسلام آباد: کیا جنرل (ر) راحیل شریف نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع مانگی تھی ؟

 مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ ہاں مانگی تھی لیکن سابق آرمی چیف اس سے انکاری ہیں اور  ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہی۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ نواز شریف کو سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں عدم توسیع پر نشانہ بنایا گیا ۔

جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ اس وقت دوبارہ سامنے آیا جب لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ نواز شریف نے ان سے کہا تھا کہ راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے بار ہا ان سے رابطہ کیا تھا اور نواز شریف نے توسیع دینے سے انکار کر دیا ۔

ان دنوں کیا کچھ چل رہا تھا دی نیوز اس کی رپورٹنگ کر تا رہا ہے لیکن اپنی حکومت جا نے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے چند سرکردہ رہنماؤں نے ڈان لیکس اور پاناما پیپرز جیسے اسکینڈلز کو جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع نہ دیئے جانے سے جوڑ دیا۔

گزشتہ سال اپنے ایک انٹرویو میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو توسیع نہ دیئے جا نے پر ان سمیت پارٹی مسلم لیگ (ن) کو نشانہ بنایا گیا ۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کے ساتھ جا کر جنرل راحیل شریف کو بتایا کہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی جا رہی۔

اس انکار کے فوری بعد جب ڈان لیکس اور پاناما پیپرز لیکس کے اسکینڈلز سامنے آئے تو انہیں شاطرانہ طریقے سے ہمارے خلاف استعمال کیا گیا ۔ جب دی نیوز نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد موقف جا ننے کے لئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے ذریعہ جنرل راحیل شریف سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب وزیر اعظم دفتر میں ملاقات کے بعد وہ جانے لگے تو شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان ان تک پہنچے۔

راحیل شریف نے امجد شعیب کو بتایا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے کیونکہ وہ کئی ماہ قبل ہی اپنی تین سالہ مدت مکمل کر نے کے بعد مزید توسیع نہ چاہنے کا اعلان کر چکے تھے۔

راحیل شریف کے مطابق جیسا کہ جنرل امجد شعیب نے بیان کیا کہ مسلم لیگی رہنماؤں کا اس بات پر زور تھا چونکہ ملک اب بھی دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہے، جنرل راحیل شریف نے کراچی کا امن بحال کیا لہٰذا حکومت چاہتی تھی کہ وہ خدمات جاری رکھیں۔

امجد شعیب کے مطابق جب راحیل شریف نے دوبارہ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے کی پیشکش کی گئی جس پر انہوں نے پھر سے انکار کیا اور وہ کوئی ایسا سربراہی کا علامتی عہدہ نہیں چاہتے تھے جہاں ان کے لئے کر نے کو کچھ نہ ہو ۔ تب دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے جنرل راحیل شریف سے کہا کہ حکومت فیلڈ مارشل کے عہدے کو با اختیار بنانے پر غور کر رہی ہے۔

جنرل راحیل شریف نے امجد شعیب کو بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے طور پر کسی سے اس معاملے پر بات نہیں کی۔ 11ستمبر 2016ء کو دی نیوز نے توسیع کے معاملے پر وزیر اعظم پر دباؤ کے عنوان سے خبر شائع کی جس میں بتایا گیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے وزیر اعظم پر مخصوص حلقوں کی جا نب سے دباؤ ہے۔

معتبر ذرائع کے حوالے سے دی نیوز نے لکھا کہ وزیر اعظم کا آرمی چیف کو توسیع دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ذریعہ کے استفسار پر یہی بتایا گیا کہ یہ فیصلہ ہے۔ گو کہ آرمی چیف نے خود ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع قبول کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، اس کے باوجود وزیر اعظم پر جنرل راحیل شریف کو پیشکش کے لئے دباؤ تھا۔

ذریعہ نے جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنائے جانے کی قیاس آرائی کو بھی مسترد کر دیا۔ جب پوچھا گیا کہ وزیر اعظم پر کون دباؤ ڈال رہا تھا تو ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ با اثر رہنماؤں نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے بار ہا کہا لیکن ساتھ ہی کچھ دیگر بارسوخ لوگ بھی دباؤ ڈال رہے تھے۔

اخبار میں یہ بھی شائع ہوا کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے کوشاں تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک با خبر رہنما کے مطابق شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان نواز شریف سے ملنے لندن بھی گئے جہاں وہ اپنے قلب کی جراحت کے لئے گئے ہو ئے تھے تاکہ راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے دباؤ ڈالیں ورنہ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں مارشل لاء نہ لگ جائے، اس کے باوجود نواز شریف نے مدت ملازمت میں توسیع دینے سے انکار کر دیا۔

دریں اثناء نواز شریف کے ایک قریبی معاون نے اس نمائندے کو بتایا کہ راحیل شریف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے جبکہ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) رضوان اختر چاہتے تھے کہ راحیل شریف کو ایک سال کے لئے مدت ملازمت میں توسیع ملے۔

اس صورت وہ ایک سال بعد آرمی چیف بنانے کے لئے غور کئے جانے کے لئے سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل ہو جاتے

گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کیلئے ووٹنگ جاری

File PHOTO



 گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔

گلگت بلتستان کی 24 میں سے 23 نشستوں کے لیے ووٹنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوا جو شام 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہے گا۔

سات لاکھ سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جب کہ سوا لاکھ سے زیادہ افراد پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔

بارش اور بالائی علاقوں میں برفباری کے باعث گانچے میں قانون ساز اسمبلی کے حلقہ جی بی اے 24 وادی سلتر و سیاچن کے پولنگ اسٹیشنز پر عملہ نہ پہنچ سکا جس کے باعث ووٹنگ کا عمل تاخیر سے شروع ہوا۔   

گلگت بلتستان میں پولنگ اسٹیشنز کی مجموعی تعداد 1260 ہے جس میں سے مرد خواتین ووٹرز کے مشترکہ پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 362 ہے، 297 پولنگ اسٹیشنز کو حساس مردوں کے ساتھ خواتین ووٹرز بھی انتہائی پرجوش ہیں اور ان کا کہنا ہےکہ اپنے حقوق کا حصول ووٹوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

شدید سرد موسم میں 98 سالہ بزرگ شہری شعبان علی نے نگر میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا جب کہ عمر رسیدہ خاتون وہیل چیئر پر ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن پہنچی۔

الیکشن پر سیکیورٹی کے لیے 13 ہزار 481 اہلکار تعینات ہیں جب کہ دیگر صوبوں سے بھی 5 ہزار سے زائد پولیس اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار میدان میں ہیں اور سب کو اپنی اپنی کامیابی کا بھرپور یقین ہے۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے بلاول اور مریم نواز نے بھرپور انتخابی مہم چلائی جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے علی امین گنڈاپور، ذلفی بخاری اور مراد